بسم تعالی السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ! ۱: یہ ایک قاعدہ ہے اور عقل بھی اس کو تسلیم اور تائید کرتی ہے اور علمائے کرام خصوصا شہید مرتضی مطہری کی بعض کتابوں مثلاً سیر ت نبوی میں بھی اس کو بیان کیا ہے، جس کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ “ فقد ہدف کا پاک ہونا کافی نہیں، بلکہ اس ہدف و مقصد کو حاصل کرنے کے لئے جو راستہ اختیار کیا جائے اور جو ذرائع استعمال ہوں ان کا بھی پاک و منزہ ہونا لازمی اور ضروری ہوں”۔ اگر اس چیز کو مدنظر رکھا جائے تو بتائیں مصلحت آمیز جھوٹ بولنا مثال کے طور پر دو افراد کے درمیان صلح کرانے کے لئے بولنا وغیرہ بیان شدہ قاعدے کے خلاف نہیں ہوگا۔ چونکہ جھوٹ تو آخر جھوٹ ہے اور اس کا شمار گناہوں میں ہوتا ہے۔ کیا ایک مقصد جو کہ بذات خود پاک ہے اس کے حصول کے لئے جھوٹ کا سہارا لینا صحیح رہے گا؟ ۲: گزارش ہے کہ توریہ کی تعریف اور تشریح فرمائیں اور وہ خاص موارد جہاں شریعت نے اس کے استعمال کی اجازت دی ہے ذکر فرمائیں تاکہ اللہ رب العزت کی طرف سے دی گئی اس رعایت سے اس کے صحیح موارد میں استفادہ کیا جا سکے اسطرح سے کہ انسان کو جھوٹ کا بولنے کی نوبت بھی نہ آئے اور جھوٹ جیسے گناہ سے بچ جائے اور اس رعایت سے سوئے استفادہ نہ بھی ہو۔ برائے کرم رہنمائی فرمائیں والسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
باسمه تعالی
پاسخ استفتاء شما :
۱_چھوٹ کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے، برای اصل دومسلمان چھوٹ کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ ہو
۲ توریہ یہ ہے کہ انسان جب کلام کرے تو کجھ وجھون سے ہو جیسے متکلم کلام کرے اردہ کری سننے والاسمجھ نپائے کہ مثلاً کھے کہ میں یھان پر ہیں تھا کہ سننے والا سمجھ کہ گھر پر نہیں تھا