بسمہ سبحانہالسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!بعد از سلام و تحیت:حدیث منزلت «أنتَ مِنّی بِمَنزلةِ هارونَ مِنْ مُوسی، اِلّاأنـّه لانَبی بَعدی» اہل تشیع اور اہل تسنن دونوں کی معتبر کتب احادیث میں وارد ہویی ہے اور اس کا شمار حدیث متواترہ میں ہوتا ہے۔ شیعوں کے نزدیک اس حدیث سے امیر المومنین حضرت علی (ع) ابن ابی طالب (ع) کے لیے رسول اکرم (ص) کا بلافصل خلیفہ ہونا ثابت ہے۔ جبکہ اہل سنت کا موقف یہ ہے کہ رسول اکرم نے فقد جنگ تبوک پر جاتے ہویے حضرت علی(ع) کو اپنی اہلبیت پر نگراں مقرر کر کے مدینہ چھوڑ گے تھے۔ اور ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں، چونکہ حضرت ہارون (ع) کی وفات حضرت موسی (ع) کی حیات میں ہی ہویی تھی لہذا حضرت ہارون (ع)، حضرت موسی (ع) کے جانشین قرار نہیں پاتے۔ مزکورہ بیان سے نتیجہ لیتے ہویے اہل سنت حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس حدیث (حدیث منزلت) کو حضرت علی (ع) کا بلافصل خلیفہ و جانشین ہونے کی دلیل کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔ معظم لہ سے گزارش ہے کہ اس اعتراض کا مفصل جواب عنایت فرماییں۔معظم لہ کی صحت و سلامتی اور طول عمر کی دعا کے ساتھوالسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

باسمه تعالی
پاسخ استفتاء شما :

باسمه سبحانه

اس اعتراض کے جواب میں چند معروضات پیش خدمت ہیں :

۱ : اس روایت میں صرف حضرت علی کا خلیفه پیغمبر ہونا اور اس جانشینی کا حضرت ہارون کی جانشینی سے مشابہ ہونا بیان کیا گیا ہے لیکن اس جانشینی کی مدت یا اس کا وقت اس روایت میں مدنظر نہیں رکھا گیا ہے ۔
لہذا اس روایت سے حضرت علی کے لئے صرف اصل خلافت ثابت ہوتی ہے جس طرح ہارون موسی کے جانشین تھے ۔
اب اگر حضرت موسی کی حیات میں ہی حضرت ہارون کی وفات ہوجاتی ہے تو اس سے حضرت علی کی جانشینی پر کوئی حرف نہیں آتا ہے اس لئے کہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ اگر ہارون موسی کے بعد زندہ رہتے تو قطعاً موسی کے خلیفہ ہوتے ۔
لہذا ہم اعتراض کرنے والے اہل سنت سے پوچھتے ہیں کہ اگر ہارون بعد تک زندہ ہوتے تو موسی کا جانشین کون ہوتا ۔ ؟

کیا وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہارون صرف موسی کے کوہ طور کے سفر کے دوران جانشین تھے ۔
موسی کی وفات کے بعد ان کی جانشینی کا کوئی تصور نہیں ۔؟

۲ : اس روایت سے درحقیقت خلافت کے لئے حضرت علی کی لیاقت اور صلاحیت ثابت ہوتی ہے اور جب ایک مخصوص وقت اور مخصوص موضوع کے لئے ایک شخص جانشینی کے لائق ہے تو ماننا پڑے گا کہ دیگر اوقات اور دیگر موضوعات کے لئے بھی وہی شخص جانشینی کے لئے موزوں ہے ۔

اسی بنا پر ہم شیعہ ابوبکر کو رسول کا جانشین تسلیم نہیں کرتے کیونکہ رسول نے کسی بھی موقع پر انھیں اپنی جانشینی کے لائق نہیں سمجھا حتی مشرکین مکہ کے درمیان سورہ براءت کی تبلیغ کے موقع پر بھی اللہ کے رسول نے مسلمانوں پر اس حقیقت کو اجاگر کردیا ۔

لہذا اس روایت کے بارے میں اس قسم کی تاویلات سے حقیقت کا انکار ناممکن ہے ۔
ایسی تاویلوں سے حضرت علی کی خلافت پر آنچ نہیں آسکتی ۔

۳ : اس کے علاوہ یہ کہ پیغمبر عقل مجسم ہیں ۔ جب اپنی زندگی میں مختصر وقت کے لئے جانشین بنارہے ہیں تو اپنے بعد کے لئے تو بدرجہ اولی جانشین بنائیں گے ۔
یہ ہرگز ممکن نہیں ہے کہ زندگی کے لئے تو آپ جانشین مقرر کریں اور ہارون سے تشبیہ دیں مگر وفات کے بعد کے لئے مقرر نہ کریں ۔

معلوم ہوا کہ ہارون سے تشبیہ صرف صلاحیت کے ثبوت کے لئے ہے ۔
اور جب یہ صلاحیت ثابت ہوگئی تو پھر اگر ہارون کی وفات موسی کی حیات میں بھی واقع ہوجاتی ہے تو اس سے ہمیشہ کی جانشینی کی صلاحیت کا خاتمہ لازم نہیں آتا اور اس طرح حضرت علی کی دائمی خلافت پر بھی کوئی حرف نہیں آتا ۔

دکمه بازگشت به بالا
بستن
بستن