السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ! بعد از سلام و تحیت: حضرت زہرا (س) نے حضرت ابوبکر سے جب باغ فدک کی واپسی کا مطالبہ کیاتو حضرت ابوبکر نے رسول خدا (ص)سے منسوب کر کے حدیث سنائی، اس حدیث کا مفہوم یہ ہے “ہم گروہ ابنیاء وراثت نہیں چھوڑے ، جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے”۔ اس پر صدیقہ طاہرہ(س) نے قرآن مجید سے ابنیاء کا اپنی اولاد کے لیے ارث چھوڑنے کے ثبوت کے طور پر آیات پیش کیں، جیسا کہ حضرت زکریا (ع) کی دعا جس میں انہوں نے اپنے لیے وارث طلب کیا ہے، اور اللہ تعالی نے ان کو حضرت یحیی (ع) عنایت فرمایا، اسیطرح حضرت سیلمان کا حضرت داود (ع) سے وراثت پانا۔ جب گروہ مخالف کو ان آیات سے استدلال کیا جاتا ہے تو وہ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن مجید کی جن آیات میں انبیاء کی وراثت کی بات ہوئی ہے وہ وراثت علمی ہے نہ کہ مال و جائیداد کی وراثت۔ اس اعتراض کا جواب کیسے دیا جائے، برائے مہربانی رہنما فرمائیں۔ اللہ تعالی توفیقات خیر میں اضافہ فرمائے۔ مع السلام

باسمه تعالی
پاسخ استفتاء شما :

پہلی بات یہ ہے کہ وراثت انبیاء کی آیت مطلق ہے جس میں مال کی وراثت بھی شامل ہے بلکہ وراثت کے حقیقی معنی مال کی وراثت ہے اور اگر علم کے لئے بھی میراث کا لفظ استعمال ہوا ہے تو وہ مناسبتِ حکم و موضوع کے قرینہ کی بنا پر لفظ میراث کے مجازی معنی ہیں نہ کہ حقیقی معنی۔
اسی لئے انبیاء نے اپنے علم کا وارث ساری اولاد کو نہیں بنایا ہے بلکہ اپنی بعض اولاد کو بنایا ہے حتی بعض انبیاء کا علم نبوت اولاد تک منتقل ہی نہیں ہوا ہے لہذا علم حقیقت میں میراث ہی نہیں ہے بلکہ ایک سیکھی جانے والی شے ہے۔
اب اگر بعض روایات میں علماء کو انبیاء کا وارث قرار دیا گیا ہے تو وہ امت کے درمیان ان کی عظمت کے لئے ہے نہ کہ حقیقی وارث ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر علم ہی انبیاء کی حقیقی اور تنہا میراث ہوتا تو پھر کیوں ابوبکر نے بعد میں فدک کی واپسی کا ارادہ کیا جبکہ ابوبکر کا فدک کی واپسی کا ارادہ خود اہل سنت کی کتب میں موجود ہے کہ دیگر افراد ابوبکر کے فدک کی واپسی میں مانع ہوگئے۔
تیسری بات یہ ہے کہ خود اہل سنت کی کتب میں ہے کہ پیغمبر کے چچا عباس نے میراث کا مطالبہ کیا اور حضرت علی علیہ السلام نے مخالفت کی۔

دکمه بازگشت به بالا
بستن
بستن